جہاں لفظ ماں آیا سمجھ لیا کہ ادب کا مقام آیا میری نظر میں تخلیق کائنات کے وقت اللہ رب العزت نے اس پاک ہستی کو یہ سوچ کر بنایا کہ جب انسان کو دنیا میں کہیں سکون کی دولت نہ ملے گی تو اپنی ماں کی آغوش میں آکر اپنی سوچوں آہوں اور دکھوں کو نثار کرے گا اور ایسی راحت محسوس کرے گا جو اسے کہیں نہ ملی ہو گی ماں جیسی ہستی اس کائنات میں اس کائنات کا ایک جز ہے یہ ہستی اپنے اندر ایک محبت کا سمندر لیئے ہوئے ہے اگر اولاد کو ذرا سا دکھ میں دیکھا فورا محبت کا سمندر ٹھاٹھیں مارنے لگا اور اس دکھ کو اپنی لہروں میں بہا کر محبت کا سکھ لے آئی اور پھر سے جینے کی کرن ابھار دی اگر تاریخ میں جھانکا جائے تو چاہے ماں جتنا ہی اولاد سے خفا ہو مگر دل سے نہیں ہوتی مگر مجھے تو اس ہستی کے ڈانٹ میں بھی محبت کا اظہار نظر آتا ہے خوش نصیب ہیں وہ جن کی ماں زندہ ہے میرا ایمان ہے کہ کبھی ماں کسی کو دل سے بدعا نہیں دیتی اور اگر کسی نے اس ہستی کو دکھ دیا اور وہ ناراض ہو گئی تو سمجھ لو کہ دنیا سے بھی وہ شخص نامراد گیا اور آخرت میں بھی نامراد رہا اس لیے اس ہستی کا مقام اس کائنات سے بھی بڑا ہے اور محبت کی انتہا بھی اسی ہستی میں ہی ہے بقول تابش کے
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
ماں جنت ہے اور ماں کی قدر کا اس وقت پتہ چلتا ہے جب ماں دنیا سے چلی جاتی ہے ماں کی قدر حضر ت موسیٰ علیہ السلام ہی جان سکتے ہیں جب اﷲ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا موسیٰ دھیان سے جانا اب تیرے ساتھ تیرے ماں کی دعائیں نہیں ہیں۔ کائنات میں ماں سے زیادہ ہمدرد اور پیار کرنے والا ماں کے علاوہ کوئی اور نہیں ہے۔
ليست هناك تعليقات:
إرسال تعليق